Alfia alima

Add To collaction

اگنی دا

اگنی دا
کرنل مرزا کا ہیلی کاپٹر گوپے کے سامنے پیلی اور تپش سے سیاہ پڑی گھاس پر سے ابھی اڑا تھا۔ ٹھاکر تیج سنگھ کی تلاش میں صحرا کے اوپر لمبی اور نیچی پرواز کے لیے انہوں نے پروگرام کے مطابق اپنی دوربینیں اور بھری ہوئی بندوقیں، گولیوں کے راؤنڈ بھی ساتھ لیے تھے۔ ہم کئی دنوں سے اس ٹوبے کو اپنا ٹھکانا بنائے ہوئے ہوتے تھے کیوں کہ یہ ٹوبہ رنہال پوسٹ اور جے پور کی سرحد کے قریب تھا۔ دونوں حکومتوں کو ٹھاکر تیج سنگھ کی ضرورت تھی۔ اس کے سرپر ایک بہت بڑا انعام مقرر تھا جس کا اعلان کئی بار ہوچکا تھا مگر سردار صحرا کے ہونے کے غرور، طبیعت کی بے باکی اور جرأت مندی نے اسے اپنی جان سے بھی بےپروا بنادیا تھا۔ وہ کڑے پہرے اور تنگ گھیرے کے باوجود جو چاہتا کر گزرتا۔ 

گرم ہواؤں کے ابلتے ہوئے چکر کھاتے اور آگ اگلتے اس موسم میں جب سورج تمہارے سر پر چمک رہا ہو اور ریت کے لہریوں میں سےآگ کے شعلے لپکتے ہوں، وہ اپنے تیز رفتار اونٹوں کے جھنڈ لے کر جس پوسٹ پر موقع ملتا حملہ کردیتا۔ ہم تقریباً پچاس آدمی اس جنگ میں لگا چکے تھے اور کرنل مرزا کے لیے یہ اب زندگی اور عزت کا سوال بن گیا تھا۔ مردہ یا زندہ تیج سنگھ۔ 

جھکڑوں اور خونی آندھیوں کے گھیرے میں تیز رو لہروں میں ہونکتا ہوا سناٹا ہمارے چاروں طرف ہے۔ بدطینت دشمن کی سی چالاکی سے وہ آدمی کو گرفتار کرتا اور فنا کرتا ہے۔ صحرا کی بے چین روحیں پل پل لمحہ لمحہ زندگی کی کھوج میں گھومتی ہیں۔ خانہ بدوشوں کی طرح ٹیلے اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوا، غصہ ور دیوانی اپنا سرجھٹکتی شور مچاتی رہے، ریت کے ابلتے ہوئے فواروں میں سورج اپنا زور اور توانائی لگاتا ہے مگر شامیں اپنی مہندی لگی پوروں سے رات کی اوڑھنی پر ٹھنڈے ستارے ٹانکتی ہیں، اسے سجاتی ہیں پھر خاموشی کی ڈھولک پر لمبی تانوں والے راگوں کی پھوار ریت کے ذروں کو رجھاتی ہے۔ کال کڑچھی بولتی ہے۔ 

سارے ٹوبے سیاہ کیچڑ بن جاتے ہیں جو اندر کی تپش سے پھٹ جاتی ہے اور کالے چڑمڑائے ہوئے پتوں کی طرح کھڑکھڑاتی ہے تو ریت اس ساز پر اپنے وحشی گیت اور موت کے ترانے گاتی ہے مگر یہ ٹوبہ۔۔۔ جس کا پانی پاتال سے ملا ہے کبھی نہیں سوکھتا کیونکہ اس اونچے ٹیلے کی خطرناک ڈھلوان سے نیچے کی طرف جنڈاور کریں رائی اور پھوگ کے پودے بڑے چھتنار جال کے درخت میں الجھے ہوئے اس پر گرے پڑتے ہیں اور پانی پر سایہ کیے ہوئے ہیں جیسے پیاس بجھانے کو جھکے ہوں۔ ٹھنڈا اور میٹھا پانی آسمان کی نگاہوں سے چھپا سخت موسم میں بھی اس میں ہلکورے لیتا ہے۔ صحرا میں گم ہوئی گائیں، راہ بھولے ہوئے اونٹ، بھٹکے ہوئے ہرن سب اس پانی پر کبھی نہ کبھی جمع ہوتے ہیں۔ دوست اور دشمن اس چشمے پر اکٹھا ہوتے ہیں۔ خدا کی اس فیاضی پر خوش ہوتے ہیں۔ 

اور اس اونچے ٹیلے پر بنے گوپے پر پیچ راہوں سے ایک دوسرے سے ملے ہیں، یوں لگتا ہے ایک شہرآباد تھا۔ اناج اور اسلحہ اور کپڑے اور تصویریں بنانے کاسامان، پنسلیں اور برش، کاغذ اور کینوس، سنگار کا پٹارہ، گھنگرو وار ستار، ڈھولک، شہنائی اور انگریزی کتابیں، بے شمار لوٹ کے ڈھیر، نایاب چیزیں پھیلی ہوئی زندگی کا سمٹا سا نقشہ۔ 

شام قریب تھی۔ دھوپ کے زورمیں ذراکمی تھی۔ جب ہیلی کاپٹر بلند ہوا ہے تو دھلی ہوئی فضامیں تیر کی طرح سنسناتا ہوا دور تک دکھائی دیتا رہا پھر افق نے اسے اچک لیا اور نظر کی حد سے پرے اس کی بھر بھر بھی بند ہوگئی۔ میں نےباہر گوپے میں آکر ادھرادھر دیکھا۔ بندوق کو چٹائی پر رکھ دیا۔ اپنے اکڑے ہوئے اعضاء کو سیدھا کرنے کی خاطر سر سے اوپر ہاتھ اٹھاکر انگلیوں کو چٹخا۔ دائیں بائیں گھوما۔ ہوا کے آنے والے سوراخوں سے آنکھ لگاکر دیکھا، سپاہی بندوقیں لیے مستعد کھڑے تھے۔ میں نے ٹھنڈی ریت پر اوندھے لیٹ کر اپنا جلتا ہوا چہرہ چٹائی پر رگڑا۔ آنکھیں خود بخود بند ہونے لگیں اور پھر جانے کب مجھے نیند نے آلیا۔ 

’’جناب! یہ عورت آپ سے ملنا چاہتی ہے۔‘‘ سپاہی کی آواز توپ کے گولے کی طرح میرے کان میں داغی گئی۔ گھبرا کر میں نے بندوق پر ہاتھ مارا۔ اکڑی ہوئی ٹانگوں نے ہلنے سے جواب دے دیا۔ سوئی ہوئی انگلیاں بے جان سی بندوق کے گرد مردہ گھاس کی طرح بکھر گئیں۔تنگ راہ سے پرے مجھے ایک گھاگرے کی گوٹ دکھائی دی اور گھیر پر اٹکے ہوئے ملگجے کرتے کے دامن پر لٹکے ہوئے ہاتھ تڑے مڑے کاغذ کی طرح زاویوں اور مثلثوں اور ٹکڑوں اور شکلوں میں بٹے ہوئے تھے۔ لمبی انگلیاں پتلی تھیں جیسے کسی زمانے میں یہ ہاتھ ساز بجاتے رہے ہوں۔ ان انگلیوں نے برش اور قلم سے تصویریں بنائی ہوں۔ پتھر کو تراش کر اس میں سے مورتیاں نکالی ہوں۔ یہ ہاتھ کمزور نہ تھے مگر مضبوط اور جب جوان ہوں گے تو جانے کیا ہوں گے۔ اب بھی ان سے گھبراہٹ نہیں جھلکتی تھی۔ چہرہ مجھے اس وقت تک دکھائی نہیں دے سکتا تھا جب تک میں باہر نہ جاؤں یا آنے والی کو اندر نہ بلاؤں۔ 

بندوق کو اپنے سامنے تانے جب میں جھک کر باہر آیا تو میرے سامنے ایک دھندلے بھولے ہوئے خواب کی سی صورت تھی۔ پرچھائیں، مورتی جو پتھروں تلے دبی دبی ریزہ ریزہ ہو چکی ہوں مگر جھری نہ ہوں۔ سفید بالوں میں کہیں کہیں سیاہی تھی اور گوندے جمائے ہوئے چمکیلے بالوں میں مانگ گم ہوئی پگڈنڈی کی طرح تھی۔ سفید بھویں پپوٹوں پر چھائی ہوئی تھیں اور پپوٹے بے پلکوں کی آنکھوں پر گرے گرے تھے۔ نگاہ اوٹ سے جھانکتی کرن تھی اور دھیرے دھیرے دیکھے جانے والی شکل کو اجالتی تھی۔ گردن سیدھے کندھوں پر ٹکی ہوئی ذرا آگے کو جھکی ہوئی تھی جیسے کوئی وجود صدیوں پرانے پردوں کو ہٹاکر آج کی دنیا کو دیکھ رہا ہو۔ 

’’میں ’اگنی ادا‘ہوں تیج کی دائی ماں، ٹھاکر تیج سنگھ کی دائی ماں۔‘‘ میں اسے دیکھتا ہی رہا۔ 

’’کیا تم نے اسے کھوج لیا ہے۔ کیا وہ تمہارے پاس ہے؟‘‘ اس نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔ لفظ گڈمڈ ہو رہے تھے۔ 

’’اجے سر سے آئی ہوں۔ کیا تم بیٹھنے کا نہ کہوگے؟‘‘ مجھے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اسے کیا جواب دوں۔ 

’’تم اپنی بندوق کو پرے کر لو۔ یہ نہیں کہ مجھے اس کھلونے سے ڈر آتا ہے۔ میں بہت تھک گئی ہوں۔‘‘ پھر وہ اپنا بھاری گھاگرا سمیٹ کر اس کے گھیروں پر بیٹھ گئی۔ جوتیاں اتار کر اپنے سامنے رکھ لیں اور پاؤں کو دبانے لگی۔ 

’’تمہیں اپنے سے کسی بڑے افسر کا انتظار ہوگا کہ تم خود مجھ سے بات کر سکوگے۔‘‘ مجھے چپ دیکھ کر اس نے کہا، ’’میرا بچہ سیدھا اور بھولا ہے، ہٹیلا بالک۔ ہوائیں اسے چک پھیریاں دیتی ہیں۔ اپنے ساتھ اڑائے اڑائے پھرتی ہیں۔‘‘ 

’’ہوائیں بھی کسی کو قید کر سکتی ہیں۔‘‘میں نےحیران ہوکر پوچھا۔ 

’’میں سچ کہتی ہوں یہ ہوائیں اپنی لہروں اور آوازوں سے ایسا جادو جگاتی ہیں، ایسی ہانک لگاتی ہیں، یہ کبھی نہ ختم ہوتیں۔ صحرا پر دن رات ناچتی ہیں۔ تم نے کبھی ریت پر ناچ کے چکر نہیں دیکھے نا، ور نہ تمہیں پتہ ہوتا کہ ان پر اگر کوئی ایک بار پاؤں دھردے تو پھر وہ کہیں کا نہیں رہتا۔ پھر کسی کی نہیں سنتا، اپنی دائی ماں کی بھی نہیں۔‘‘ 

’’عجیب بات ہے۔‘‘ میں نے جواب دینے کے لیے کہا۔ 

’’تمہیں پتہ ہے نا دکن سے ہوا گھلے تو بارش ہوتی ہے۔ گھنیرے کالے بادل امنڈ گھمنڈ کر آتے ہیں۔ بجلی کے لہریے زمین کو چمکا دیتے ہیں ایسے ہی چکروں کی بھی کہانی ہے۔ مگر تم شہروں کے رہنے والے یہ سب کیا جان سکتے ہیں۔‘‘ 

’’اچھا!‘‘ اب میں دل چسپی اور توجہ سے بات سن رہا تھا۔ 

’’ہوا آدمی کو اپنے اندر لپیٹ لیتی ہے، اپنی بلاؤں کو اس پر بٹھا دیتی ہے، اس کے سر میں گھومنے پھرنے اور آزادی کے خیال بھر دیتی ہے۔ وہ جوانوں کے دل کو آبادیوں سے پھیر دیتی ہے، وہ دیوانے ہوکر بستیوں سے نکل آتے ہیں۔‘‘ وہ اپنے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر بیٹھی رہی۔ 

کرنل خشک لمبی لیٹی ہوئی سوکھتی چرمراتی گھاس پر سے چلتا ہوا روشنی ملی نیلاہٹ کے گلابی پڑتے اجالے سے ہماری طرف آیا۔ گوپے کی طرف چبوترے پر قدم دھر کر وہیں کھڑا ہوگیا۔ 

’’یہ تیج سنگھ آف اجے سر کی دائی ماں ہے اگنی دا۔‘‘میں نے فراغت کا سانس لیا اور بندوق کو اپنے ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں بدلا۔کرنل نے گہری سوچتی ہوئی نگاہ سے اگنی دا کی طرف دیکھا جو اپنی ادھ مندی آنکھیں کھول کر بے خوفی سے کرنل کی طرف دیکھ رہی تھی۔ کرنل کے ماتھے پر ایک رگ زور سے پھڑک رہی تھی۔ شاید اسے غصہ آرہاتھا۔ 

’’کیا کہنے کی ضرورت ہے تیج سنگھ کے لیے اور اگر کسی بڑی ریاست کا راجہ ہو تو بھی سزا سے نہیں بچ سکتا۔ وہ پورا اپنی ایڑی پر گھوم گیا اور ٹیلے کی بلندی سے اس نے نیچے پاتال سے ملے ٹوبے پر نگاہ دوڑائی جہاں جال میں چڑیاں شور مچا رہی تھیں اور شام کی ہوا سے پانی گیت کی لے پر مست مانجھی کی طرح تال کے بیچ ٹھہرا ہوا تھا۔ 

’’میرا سوال سن لو جواب دینا نہ دینا تمہارے اختیار میں ہے۔‘‘ اگنی دا کی آواز بیٹھی تان کی طرح کرنل کے پیچھے سے اٹھی۔ 

’’مگر یہ سب ناممکن ہے۔ تم یہ چاہوگی کہ میں اس کا پیچھا نہ کروں۔‘‘ کرنل نے جھنجھلاکر اپنا پاؤں زمین پر مارا۔ ’’میں مہینے سے اس جلانےوالی گرمی اور پیڑوں کو کملا دینے والے صحرا میں ڈیرے ڈال کر یونہی نہیں پڑا ہوں۔‘‘ 

اگنی دانے ڈھلک جانے والے دوپٹے کو سر پر برابر کیا، ’’بھکشا ناتےبات کرنے کا ادھیکار تو دو۔ تم بہت غصے میں ہو۔ تمہیں ہونا ہی چاہیے۔ تم بہت دنوں سے اس صحرا میں گھوم رہے ہو۔ یہ بھی مجھے معلوم ہے تم تیج سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی کھوج میں ہو۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ۔‘‘ وہ سینے پر ہاتھ رکھ کر آگے کو جھک گئی۔ ’’میں نے تین نسلوں سے اس کی چاکری کی ہے۔ تین نسلوں کی رگوں میں میرا دودھ ہے۔ کیا مجھے کچھ کہنے نہ دوگے؟‘‘ 

’’مگر تمہاری بات ایسی ہوگی جو میں کبھی نہیں مان سکتا۔ پھر ایسی باتیں سننے سے کیا ملے گا۔‘‘ کرنل نے بہت آہستگی سے کہا جیسے اگنی دا سے زیادہ اپنے آپ سے بحث کرکے اپنے آپ کو منوا رہا ہو۔ 

’’دیکھو میں تمہارے پاؤں پڑتی ہوں۔ ایسی کوئی بات نہیں کہوں گی جس سے تمہاری راہ میں مشکلیں پیدا ہوں۔ سوچ کر جواب دو مجھے واپس جانے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ اجے سر میں اب میرا کون بیٹھا ہے۔‘‘ 

’’کیوں اجے سر میں تمہارا خاندان ہوگا، بہوئیں، بیٹیاں، بیٹے، پوتے، گھر۔‘‘ کرنل نے کہا۔ 

’’ میرا سب کچھ اس صحرا میں ہے۔ صرف تیج میرا ہے۔ میرا ٹھاکر۔‘‘ 

کرنل نے کہا، ’’ گوپے میں چٹائیاں سیدھی کردیے جلاؤ۔ ہم اگنی دا کی بات سن ہی لیں اور میری طرف دیکھ کر کہا ٹوبے کے چاروں طرف پہرہ دوگنا کردو۔ میں سارے ٹوبوں اور پانی کے ٹھکانوں پر دیکھ آیا ہوں۔ ایک بوند کہیں نہیں ہے سوائے اس ٹوبے کے۔ رکن پور کے پانی کے ذخیروں کا بھی یہی حال ہے۔‘‘ 

میں نے سرجھکا دیا۔ ریت ٹھنڈی ہو رہی تھی۔ سیاہ آسمان دوج کے چاند کی روشنی میں خالی خالی ساتھا۔ ڈھلوان پر درختوں میں ہوا سرسرارہی تھی اور کم سر سے ابھرتی تو بال بکھرائے کنچنی کی طرح ہمارے چاروں طرف چک پھیریاں لیتی۔ مدھم زردی میں ستارے ایک دم نہیں جیسے اندھیری راتوں میں ہوتا ہے، ایک ایک دو دو کی ٹولیوں میں ہمارے سروں پر جمع ہو رہے تھے۔ 

’’ناتواں اگنی دا کسم سر تک کا لمبا راستہ تم نے کیونکر طے کیا۔ گرمی اتنی بے پناہ تھی اور تم تو ہوا کے ایک جھونکے سے اڑجاؤ۔‘‘ 

دیے کی لو سیدھی اس کی زمانوں سے بھی پرانی آنکھوں میں پڑ رہی تھی اور وہاں ہیرے کی چمک اور پھر الگ الگ ٹکڑے میں الگ جیسے ہیروں کے ریزوں سے بنی مورتی پھر دیوں کی لو کانپے اور دکھائی دے۔ اگنی دانے آنکھیں جھپکا کر کہا، ’’کسم سر میرے لیے کوئی نئی جگہ نہیں ہے۔‘‘ پھر سانس لینے کے لیے رک کر اس نے کہا، ’’پہلے یہ سارے ٹوبے آباد تھے، جیتے جاگتے لوگ یہاں رہتے تھے۔ اجے سر سے اکثر کسم سر آیا کرتی تھی۔ میرے ٹھاکر کے دادا کے وقتوں میں یہ آبادیاں تھیں۔ راج محلوں کی سی رونقیں تھیں۔ پھر اور لوگ، خراب موسم، وقت سب نے مل اجے سر کر ایک گڑھی بنا دیا۔‘‘ سیٹی کی آواز کرنل کے منہ سے نکل گئی۔ 

’’تمہیں وشواس نہیں ہے نا۔ میں بھگوان کی سوگند اٹھاکر کہتی ہوں۔ یہ سب سچ ہے۔‘‘ 

’’ان ویرانوں کو دیکھ کر کبھی یہ گمان نہیں ہوتا۔‘‘ میں نے کہا۔ 

’’اس دھرتی پر تماشے ہوتے ہیں اور آکاش یہ تماشے دیکھتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کچھ سے کچھ ہوجاتا ہے۔ راجے ڈاکو بن جاتے ہیں۔ عزت دار بڑے لوگ بس مٹی میں مل جاتے ہیں۔ ‘‘اگنی دا کی مدھم مگر مضبوط اور صاف باتیں سب کو سنائی دے رہی تھیں۔ 

’’یہ تو ہے، یہ تو ہے۔‘‘ کرنل نے اپنے گھٹنے پر ہاتھ مار کر کہا۔ 

’’بھگوان تمہیں سکھی رکھے۔ جب تم یہ سمجھ گئے ہو تو آگے کی بات بھی تمہیں سمجھ آجائے گی۔‘‘ 

’’اگنی دا میں تمہاری بات سمجھتا ہوں اور پھر بھی مجھے پتہ ہے تیج سنگھ کو دنیا کی کوئی حکومت معاف نہیں کرے گی۔‘‘ کرنل کی آواز الجھی ہوئی، جھگڑالو، تیز اور قطعی تھی۔ 

’’میں نے کہا ہے تم ٹھاکر کو چھوڑدو؟‘‘ اس نے ہم سب کے منہ کی طرف دیکھا۔کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ 

’’اصل میں سارا قصور میرا ہے۔ اس ساری کہانی کی مصیبت میری لائے لائی ہوئی ہے۔ بڑے ٹھاکر کو میں نے بچوں کی طرح پالا تھا۔ امرسنگھ کو تیج سنگھ کے باپ کو میں نے اپنا دودھ پلایا ہے اور اس سینے میں آگ جلتی ہے الاؤ لپکتے ہیں۔ جب میں وہ سب یاد کرتی ہوں جو ہوا۔۔۔‘‘ وہ سرجھکاکر چٹائی پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ 

’’امرسنگھ سیدھا تھا۔ بھولا اور وشواس کرنے والا اور اس لیے جب اس کے گھر میں وشواس گھات ہوئی تو اسے پتہ ہی نہ چلا۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ وہ بہو جس کو سہاگ رات سے میں نے اپنے ہاتھوں کا سایہ کیا، جس کے قدموں میں آنکھیں بچھائیں، جسے اپنی کوکھ سے جنم پانے والی بیٹیوں سے زیادہ پیار کیا۔ وہ مجھے ہار دے گی، میرے دل کو اپنے پیروں میں مسل کر آگے نکلے گی، وہ اس کی پروا نہیں کرے گی جو اس کا سہاگ تھا۔ پہلے پہل میں نے سوچا ہوسکتا ہے یہ میرا وہم ہو۔ میری آنکھیں دھوکہ کھارہی ہوں۔ میرے کان کم اور غلط سنتے ہوں۔ یہ صرف دیوار اور بھابی کی چھیڑ چھاڑ ہو۔ ذرا سی دل لگی، تھوڑا سا دلار یونہی مان اور کھیل۔ پتہ نہیں امرسنگھ کو کیوں شبہ نہیں ہوا۔ میں اسے بتاسکتی تھی، ہوشیار کرسکتی تھی مگر اس گھرانے میں خون کی ہولی دیکھنی نہیں چاہی۔ 

جب سمے بیت جاتا ہے تو بس بیت ہی جاتا ہے اور میرا دل یونہی اندر باہر ہوتا رہتا تھا۔ خوف کے مارے یونہی دھڑکتا تھا۔ جب سب ختم ہوگیا۔ بہو کے سولہ سنگھار اور پور پور سوگندھ، اس کے پاؤں کے پائل، اس کے ماتھے کی بندیا، اس کی مانگ کا سیندور، اس کی آنکھوں کاکاجل اس کی ستی ساوتری ہونے کی چالیں، اس کی ہنسی کی موہنی، اس کے ہونٹوں کے میٹھے بول سب مل کر وہ زہر بنے جو ٹھاکر امرسنگھ کی جان لےگئے۔ رام سنگھ اور بہو نے مل کر ایک جال پھیلایا تھا جس میں امرسنگھ پھنسا اور اس سے پہلے کہ وہ پھڑکتا وہ نہ رہا۔ آج اس گھڑی سوچتی ہوں جب اس نے ان دونوں کو اپنے پاس دیکھا ہوگا ان کی ظالم آنکھوں میں اپنے انت کا لکھا پڑھا ہوگا۔ اس ایک لمحے اس کی کیا حالت ہوئی ہوگی۔ اس کا دل تو خود ہی پھٹ گیا ہوگا۔ 

سیڑھیوں سے اترتے ہوئے میں نے رام سنگھ سے کہاتھا، ’’چھوٹے بھیا یہ تم نے کیا کردیا ہے؟‘‘ اپنی فتح کی خوشی میں اپنے مکمل اور طاقت ور ہونے کی اس گھڑی میں اس نےمجھے دھکیل کر پرے کردیا زور سے ہنسا اور کہا، ’’تو تم اگنی جانتی ہو نا کہ سب کیاہواہے۔ اپنی زبان بند رکھو۔ جو دیکھا ہے بھول جاؤ۔ اجے سر کا ٹھاکر میں ہوں،میں ہوں۔‘‘ اور اس نے زور سے اپنے سینے پر ہاتھ مارا تھا۔ اور پھر وہ لوٹ گیا تھا۔ اجے سر رام سنگھ کا تھا۔ اجے سر کی راج گدی سوگ کے بعد اسے مل گئی۔ سال بیتنے پر بہو بھی اس کی ہوگئی۔ اپے بھائی کے خون میں ڈوبا، ہنستا او رخوش اجے سرکا ٹھاکر بن گیا۔ 

’’ہوسکتا ہے یہ تمہارا وہم ہو۔ رام سنگھ کو زہر نہ دیا گیا ہو۔ تمہاری سوچ ہو۔‘‘ کرنل نے کہا۔ 

’’پہلے پہل میں نے بھی یہی سوچا تھا کہ میں جلن کے مارے دیوانی ہوں، ایسی کوئی بات نہیں، مگر وہ رات، وہ گھڑی بھلائے نہیں بھول سکتی۔ رام سنگھ کا سہاگ، گھر کی سیڑھیوں سے اترنا، مجھ سے ملنا،اس کی خوشی۔ یہ سب برا خواب سمجھنے پر بھی سمجھے نہیں جاسکتے۔ بھلائے نہیں جاسکتے۔‘‘ 

’’مجھے پینے کو پانی کا ایک گھونٹ دو بھگوان کے لیے۔ میرا گلا سوکھ رہا ہے۔‘‘ اگنی دانے ہاتھ پھیلایا۔ میں نے اٹھ کر صراحی سے مٹی کا صحرا اس میں بھر کر اسے تھمادیا۔ 

’’ہاں یہ کسم سرکا پانی ہے۔ امرت جیسا، پاتال کے سارے سوتے اکھٹے ہوئے ہیں۔‘‘ 

’’سارے ٹوبوں میں کڑوا اور بدبودار پانی ہوتا ہے صرف کسم سرکا پانی پینے کے قابل ہے کبھی سیاہ نہیں پڑتا۔ کبھی سورج کی گرمی سے سوکھتا نہیں اور کبھی کسی پر بند نہیں کیا گیا۔ صرف اب ہم اس پانی کو گھات بناکر تیج سنگھ کے منتظر تھے۔‘‘ 

’’اجے سر کی گڑھی کا مالک تو میرا ٹھاکر ہے۔ میں نے اسے بھوکے سائے سے بھی جدا رکھا۔ اب سوچتی ہوں ہوسکتا ہے اگر یہ ماں کی گود میں رہتا تو حالات دوسرے ہوتے۔ مگر نہیں یہ کیسے ہوسکتا تھا۔ رام سنگھ تو اس کی جان کا لاگو تھا۔ اگر اس کے رونے کی آواز اسے کولکیوں اور آنگنوں کے پار سےکبھی سنائی دے جاتی تو بہو پر بگڑتا۔ اس کی آنکھوں میں خون اتر آتا۔ وہ بھلا اسے کہاں برداشت کرسکتا تھا۔ میں اسے چھپا کر رکھتی۔ جب یہ کھلکھلا کر ہنستا تو مجھے ڈر لگا رہتا۔ یہ میرے دل کے وہم تھے۔ میری بھول تھی۔ میں سمجھتی تھی رام سنگھ اب تیج کو بھول گیا ہے۔ مہتاب اور شہتاب پیدا ہوئے تو اس نے مجھے بلایا تھا۔ پالنے پر جھکے ہوئے اور دونوں ایک سی صورتوں کو پیار کرتے ہوئے اس نے کہا تھا۔ اگنی دا۔ دیکھو یہ میری وجے ہے۔ 

ٹھاکر بھگوان سدا سکھی رکھیں۔ میں نے دور کھڑے ہوکر کہا تھا۔ 

قریب آؤ اور دیکھو یہ تیج سے زیادہ خوب صورت نہیں ہیں کیا؟ دل اچھل کر میرے حلق کے قریب خون خون ہونے لگا۔ میں نے ہاتھ منہ پر بھینچ لیا اور جھک کر ان دونوں کو دیکھا پھر سیدھے ہوکر کہا یہ ابھی بہت چھوٹے ہیں۔ اور میرا ٹھاکر بڑا ہے۔ بڑا اور بہت سندر۔‘‘ 

’’اگنی! رام سنگھ نے مڑ کر کہا تمہاری یہ جرأت۔ تم ہمارے ہی منہ پر ہمارے بچوں کو برا کہہ رہی ہو۔‘‘ 

’’چھوٹے بھیا میں نے تو صرف یہ کہا ہے کہ یہ ابھی چھوٹے ہیں ابھی کیا پتہ چل سکتا ہے۔‘‘ 

’’ہم چھوٹے بھیا نہیں ٹھاکر رام سنگھ ہیں۔ اس گڑھی کے مالک اور یہ شیر کے بچے ہیں۔ ان کا پتہ تمہیں پالنےمیں بھی چل سکتا ہے۔‘‘ اس نے گرج کر کہا۔بہو لیٹے اسے اٹھ گئی۔ وہ کانپ رہی تھی۔ باندیاں منہ ڈھانپ کونوں میں چھپ گئیں۔ صرف میں کھڑی تھی اور میں نے کہا تھا، ’’جب تیج بڑا ہوگا تو وہ ٹھاکر ہوگا۔ چھوٹے بھیا یہ اس کے باپ ٹھاکر امرسنگھ کی گڑھی ہے۔‘‘ میرے سارے شریر میں سے جان نکل گئی تھی۔ ٹانگیں کانپ رہی تھیں اور ہاتھ پسینے سے ٹھنڈے ہوگئے تھے۔ مگر میں نے بڑے ٹھاکر کو گودوں کھلایا تھا۔ رام سنگھ اور امرسنگھ دونوں کو اپنا دودھ پلایا تھا۔ مجھے اپنے حق اور اپنی شکتی پر بڑا مان تھا۔ 

’’اس تھپڑ کے نشانوں میں آج بھی آگ سلگ اٹھتی ہے۔ جب میں یہ سب یاد کر رہی ہوں۔ چھوٹے بھیا کے ہاتھ کی پانچوں انگلیاں جل اٹھتی ہیں۔‘‘ اگنی دا نے اپنا تڑا مڑا زمانوں پرانے کاغذ کا سا گال سہلایا۔ 

’’اگنی دا۔ اگنی دا۔‘‘ وہ چیخنے لگا، ’’یہاں سے چلی جاؤ۔ اگنی دا۔‘‘ مگر میرا سارا جسم یوں ڈھے گیا تھاجیسے بارش میں کچی دیوار بیٹھ جائے۔اس کے بعد ہر دن ایک نئی مصیبت لے کر آتا۔ رام سنگھ تیج کو بلاتا، دانت پیستا اسے ڈانٹتا پھٹکارتا۔ کبھی حکم دیا جاتا کہ تیج کو گڑھی سے باہر نکلنے نہ دیا جائے، اس پر نت نئے عذابوں اور نت نئی پابندیوں کی آزمائش ہوتی۔ ہوسکتا ہے اگر میں اپنی زبان بند رکھتی تو ہم پر یہ عذاب نہ ٹوٹا کرتا۔ ان سارے زمانوں، لمبے سالوں میں یہ سب کچھ میری وجہ سے ہوا۔ اصل دشمن میں تھی۔ جب دوسرے آپ کا حق چھینتے ہیں تو وہ ساری راہیں بند کردیتے ہیں۔ ان کے اپنے دل تک جانے والے راستوں پر بھی پہرے ہوتے ہیں۔ وہ نرمی، محبت، رشتہ، حق ہر شے کو بھول جاتے ہیں۔ ان کے لیے یہ کہانیوں کی باتیں ہوتی ہیں جو کسی اور دیس میں، کسی اور جنم میں زندہ ہوتی ہیں۔ 

میں جب تیج کو مہابھارت کی کتھائیں سناتی تو وہ ہنس دیتا۔’’ اگنی دا، جو آدمی چھٹپنے میں کچھ نہ کرسکے جوانی میں بھی کچھ نہیں کر پاتا۔ اگنی دا میں کچھ نہیں کرسکوں گا۔ تم ایسے ہی اپنی جان کھپاتی ہو۔ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ یہی تمہارے سپنوں کا سور بیربن کر گڑھی کا مالک بن جائے گا۔ میں کونڑ ہو۔ پانڈوؤں کی ماں کا بیٹا۔‘‘ جب میں منہ لپیٹ کر لیٹ جاتی اور اس سے نہ بولتی تو وہ کہتا، ’’اگنی دا۔ اگر تم کہتی ہو تو میں بہت بڑا اونچا سوربیر بن جاؤں گا۔ میرا سر چھت سے بھی اونچا ہوگا۔ بازو پھیلاکر یہ ساری جگہ گھیرلوں گا۔‘‘ 

اگر تم کر سکو تو مجھے پھانسی پر لٹکادو، میں نے اسے جھوٹے سپنوں میں الجھائے رکھا۔ میں چوری چوری اسے گھوڑوں پر سواری کے لیے بھیجتی۔ اسے تیر چلانا اور وہ سارے کرتب جو گڑھی کے ٹھاکر کو آنا چاہئیں، سکھاتیں رہی۔ میں نےاسے اندر سے نہیں باہر سے ٹھاکر بنادیا۔ ایک نراشا اور گھٹن اور بنا محبت کے پلا ہوا بچہ، سہما ہوا ڈرا ہوا، ڈرایا دھمکایا بچہ، وہ آزادی اور دل کہاں سے لاتا جو ٹھاکر بننے کے لیے ضروری ہے۔‘‘ وہ چپ ہوگئی جیسے کھو گئی ہو۔ ’’ایک دوپہر جب رام سنگھ کے باز گڑھی کا چکر لگا رہے تھے، اڑ رہے تھے تو تیج نے ان میں سے ایک کو اپنے تیر سے زخمی کردیا۔ میں نہ نہ کرتی رہی اور اس نے مجھے خوش کرنے کے لیے اپنے تیر کا صحیح نشانہ آزمانے کے لیے اس اڑتے باز کو نشانہ بنایا۔ دیواریں بھی کانپ رہی تھیں اور خوف سے سہمے ہوئے نوکر ان میں گھسے جاتے تھے جب رام سنگھ نے میرے آنگن کا دروازہ توڑ ڈالا۔ اس نے تیج کو اٹھاکر زمین پر پٹخ دیا۔ وہ چیختا رہا اور وہ اسے ٹھوکریں لگاتا رہا۔ ایسی گھڑیوں میں بھگوان سوجاتا ہے کیا؟‘‘ بہت دیر تک اگنی دا خاموش رہی۔ تھکی ہوئی چڑیا کی طرح زور زور سے سانس کھینچتی ہوئی یادوں کے دیوں میں خون جلاتی ہوئی۔ 

’’جب بہو اسے دیکھنے آئی تو جانے رات کا کون سا پہر ہوگا۔ تیج رہ رہ کر چیختا تھا اور ڈر کر سسکنے لگتا تھا۔ ذرا سا بچہ ستار کے تنے ہوئے تار کی طرح ہوا سے بھی بج اٹھتا ہو۔ کوفت اور شرمندگی اور بے عزتی کے احساس سے روندے جانے، ٹھکرائے جانے کی اذیت سے سوجے ہوئے، چوٹ کھائے ہوئے جگہ جگہ سے ابھرے ہوئے زخموں کی وجہ سے سونہ سکتا تھا۔ میری آنکھوں میں آنسو نہ تھے۔ صرف خشک سسکیاں تھیں جن کو روکے ہوئےبیٹھی میں سنکائی کر رہی تھی۔ روشنی کی چبھن سے بچنے کے لیے اپنی آنکھوں پر پردہ ڈالنے کے لیے میں نے دیا بجھادیا تھا۔ عجیب سنسناتی ہوئی بے تاب رات تھی۔ ناگن کی طرح پلٹ پلٹ کر جس کی تنہائی پلٹ پلٹ کر مجھے ڈستی تھی۔ تیج کا کوئی بھی نہ تھا۔ میرا کوئی نہ تھا۔ ہم بھگوان کی اتنی بڑی دنیا میں اکیلے تھے، اکیلے اور بھلائے ہوئے۔ میں امر سنگھ کو اور بڑے ٹھاکر کو اور سارے گزرے ہوؤں کو یاد کر رہی تھی۔ مجھے لگتا تھا کوئی نہیں ہے کچھ نہیں ہے۔ میں اور تیج پاتال میں گھر گئے ہیں۔ بھگوان میں یہاں سے کیسے نکلوں۔ کسے پکاروں کسے آواز دوں۔ بہو نے دیا تپائی کے نیچے رکھ دیا۔ میں کھڑی ہوگئی۔ 

’’اگنی دا تیج کا کیا حال ہے؟‘‘ 

’’اچھا ہے رانی ماں۔ ٹھیک ہے۔‘‘ میں نے سرجھکا کر کہا۔ 

’’اگنی،میں تمہاری بہو ہوں۔ تیج کی ماں ہوں۔ رانی ماں نہیں ہوں۔‘‘ بہو میرے پاؤں کے قریب بیٹھ گئی۔ 

’’جو آگیا رانی ماں۔۔‘‘ میں نے اپنے پاؤں گھاگرے کی گوٹ کے اندر کرلیے۔ ’’تیج کی ذرا دیر ہوئی آنکھ لگی ہے اگر برا نہ مانیں تو آنگن میں چلیں وہ روشنی دیکھ کر جاگ جائے گا۔‘‘ ہم دونوں باہر آگئیں۔ 

’’اگنی، اس میں میرا کوئی دوش نہیں، تم نے تیج کو روکا ہوتا۔ ٹھاکر کے باز پر تیر کیوں چلایا۔‘‘ 

’’دیکھو بہو میں تمہیں دوش نہیں دیتی مگر تم شتاب اور مہتاب کی ماں ہو۔ اس بنا ماتا پتا کے بچہ پر کچھ تو دیا کیا کرو، اسے جینے کا حق تو دو، تمہاری کرپا ہوگی۔ اگر تم اپنے پتی سے کہہ کر اسے کسی سکول میں بھجوا دو، وہیں جہاں پر امر سنگھ کو بھجوایا گیا تھا۔‘‘ میں نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے نہیں چھڑایا۔ ٹپ ٹپ آنسو میری ان انگلیوں کے بیچ سے گرتے رہے۔ دونوں ہاتھوں کو بھگوتے رہے۔ میں بنا ہلے کھڑی رہی۔ ایسی ہی رات تھی کالی اور دکھ بھری گونجوں سے کراہتی ہوئی۔ 

’’اگنی دا، تم کچھ بھول نہیں سکتیں۔ مجھے تیج سے ملنے دو، اس کے زخموں پر مرہم لگانےدو۔ یہ دیکھو میں یہ لائی ہوں اس نے ایک ڈبیہ میرے ہاتھ میں دے دی۔‘‘ 

’’جانے اس میں کیا ملا ہو۔ تمہارے پتی دیو کو پتہ چل گیا تو تیج کو جیتا نہ رہنے دے گا۔ اس لیے تم یہ واپس لے جاؤ اور خود بھی جاؤ۔‘‘ میں نے اسے اپنے آنگن سےتقریباً دھکیل کر دروازہ بند کردیا۔ تیج اچھا ہوا تو مجھے اسے گڑھی سے باہر بھجوانے کی جلدی لگ گئی۔ میں نے آپ ہی آپ پرانے دنوں کی یادوں کے سمے، اس کے کپڑے اور دوسرا سامان ٹھیک کرناشروع کردیا۔ سامان جو کبھی میں نے ٹھاکر امرسنگھ کے لیے تیار کیا تھا۔ ایسا ہی سامان جو میں نے بڑے ٹھاکر کے لیے بنایا تھا۔ اپنے زمانوں میں میرا دل ہلکا ہوتا مگر اب بھاری اور ڈوبتا ہوا تھا۔ 

اگلی صبح اسے روانہ ہونا تھا۔ سب تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں۔ میں تیج کو سینے سے لگائے بیٹھی تھی، جانےاب کب ملنا ہو اور ہو بھی سکے کہ نہیں۔ جینا اور مرنا تو بھگوان کے بس میں ہے پر میں پل پل مر رہی تھی۔ آج تک مر رہی ہوں۔ تیج کو اپنے سینے سے لگائے میں نے پرارتھنا کی تھی، ’’بھگوان تو اس کی رکشا کرے گا۔ میں اسے تجھے سونپتی ہوں۔ چاروں دشاؤں میں طوفان اور ہوائیں اور بلوان دشمن ہیں۔ میرا اکیلا بچہ تیرے حوالے ہے، بھگوان میرا یہ آنگن سونا نہ ہونے دینا۔ یہ دیا جلتا رہے۔ امرسنگھ کا یہ نام مٹ نہ جائے۔ بھگوان تو نے موت بنائی ہے اور زندگی بھی۔ تو نے آشائیں دی ہیں اور ان کو پورا کرنے کا بھی زور تیرے پاس ہے۔‘‘ پھر میں نے اور تیج نے مل کر مورتی کو پرنام کیا۔ میں نے آسن سے اٹھاکر سیندور کا ٹیکا اسے لگایا جیسا گڑھی کے ٹھاکر اپنی پیچدار پگڑی پہنتے سمے لگاتے ہیں۔ امرسنگھ کی پگڑی اس کے سر پر رکھی تو اس نے کہا، 

’’اگنی دا میں کسی شے پر وشواس نہیں رکھتا۔ نہ بدلہ لینے میں نہ گڑھی کاسردار بننےمیں۔ اتنی لمبی چوڑی دنیا ہے اس میں مجھے بھیج رہی ہو تو وعدوں میں قید نہ کرو۔ اب ہم یہاں سے باہر کہیں ملیں گے۔ تمہیں پتہ ہے میں اب واپس نہیں آؤں گا۔ میں کس لیے واپس آؤں۔ اگنی دا، دیکھو رو کر نہیں اب ہنس کر مجھے وداع کرو۔ اجے سر کی گڑھی ہی تو ساری دنیا نہیں ہے؟ جانے کیا کیا تمہاری اور میری آنکھوں نے نہیں دیکھا جو ہے۔‘‘ میرا ہاتھ جہاں تھا وہیں رہ گیا۔ یہ ذرا سا بچہ جو میرے سینے کے ساتھ لگ کر سوتا تھا اور جب بھوک لگتی تھی تو منہ بسور کر کھانا مانگتا تھا۔ یہ ایک دم اتنا بڑا سمجھ دار کیسے ہوگیا۔ یہ بڑی بڑی باتیں جو مجھے بھی سمجھ میں نہیں آتیں اس نے کب کہاں سے سیکھی ہیں؟ میں نے تو اسے کبھی اپنی آنکھوں سےاوجھل نہیں ہونے دیا۔ 

’’تمہیں پتہ ہے اگنی دا جب میں گھوڑوں کو بھگانے کے لیے باہر جاتا ہوں تو میں ہوا کے چکر میں اپنا پاؤں ضرور دھرتا ہوں۔ مہاراج کہتا ہے کہ اس چکر میں پاؤں دھرنے والا ہوا کے جادو کے زور سے باقی بندھنوں سے آزاد ہو جاتا ہے خوب گھومتا ہے مسافر بنا رہتا ہے۔‘‘ 

’’بھگوان میں نے اپنا ماتھا پیٹ لیا۔ تو یہ مہاراج تھا جس نے میرے تیج کو ہوا کے چکر میں پاؤں دھرنے کا بتایا تھا۔‘‘ 

’’یہ چکر کیا ہوتا ہے‘‘ کرنل نے پوچھا۔ 

’’صحرا میں رہنے والوں کے اپنے وہم ہیں۔‘‘میں نے اگنی دا کی جگہ جواب دیا، ’’ہر جگہ کے چھوٹے چھوٹے وہم ہوتے ہیں۔ شگون اور اشارے۔‘‘ 

تیج اسکول سے کبھی واپس نہیں آیا۔ چھٹیاں ہوتیں تو وہ اپنے کسی استاد کے ساتھ پہاڑ پر بھجوا دیا جاتا۔ سردیاں ہوتیں تو وہیں پڑھائی کی کمی پوری کرنے کے خیال سےاسکول کے بورڈنگ ہاؤس میں ٹکا رہتا۔ میں بولائی ہوئی دیوانوں کی طرح اپنے آنگن کے اندر دالانوں میں اور دالانوں سے باہر چھت پر نیچے پھرتی رہتی۔ آس لگائے لگائے راہ دیکھتے دیکھتے سولی پر لٹکے لٹکے مجھے نیند بھی نہ آتی۔ لمبی دوپہر کو جب سوچیں میرا پیچھا نہ چھوڑتیں۔ ہے بھگوان اب کیا ہوگا؟ کبھی تو، کبھی تو سکھ اور تیج مجھے آن ملیں گے۔جب اجے سر کی گڑھی کے باہر ایک سنسان رات میں تیج مجھے ملا ہے تو اسے دیکھتی رہ گئی۔ ’’تم نے مجھے یہاں کیوں بلایا ہے۔ گھر چلو۔ میرے سونے آنگن میں بہار آئے۔ میں تمہاری راہ دیکھتی رہی ہوں۔‘‘ 

’’اگنی دا۔‘‘اس نے اپنے بازوؤں کے گھیرے میں لے کر مجھے اپنے سینے سے لگاتے ہوئے کہا، ’’اب میں بڑا ہوگیا ہوں اور تمہارےآنگن میں سما نہیں سکتا۔ تم نے ہی تو مجھے کہا تھا کہ تم سوربیر ہو۔ اب تم مجھے کس آنگن میں لیے جاتی ہو۔‘‘ وہ اتنا بڑا، ایک دم عقل مند ہوگیا تھا کہ مجھے کوئی جواب سجھائی نہ دیا۔ میں اس کے ساتھ لگ کر کھڑی رہی، کھڑی رہی، اس کے پسینے کی سوگندھ اس کا بھرا ہوا جسم یہ سب میرے تھے۔ ہاں میں اب اس پر مان کرسکتی تھی۔ شتاب اور مہتاب کی ماں نہیں، بہو نہیں، میں تیج کی ماں تھی۔ وہ مجھے کمزور بچہ سمجھ کر میرے سفید بالوں پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔ میرے ماتھے اور گالوں کو چوم رہاتھا۔ مجھے گھڑی گھڑی اپنے سے لگا رہاتھا۔ تیج میرا بچہ تھا۔ میرا اپنا تھا۔ 

’’تیج! میرے بچے آخر تم کہا جارہے ہو۔‘‘جب اس نے مجھے اپنے سے الگ کیا تو میں نے پوچھا۔ 

’’یہ گھمبیر، بڑی اور گہری رات ہے اس میں کیا ہے۔ مجھے معلوم نہیں اس میں کیا ہے۔ نہیں معلوم نہیں۔ بس میں یہی کھوجنےنکلتا ہوں۔ دا، انجانے کاجادو، زور سے ٹکر لینے کاجادو مجھے کو گھیرے ہوئے ہے۔‘‘اس نے مجھے پھر اپنے ساتھ لگا لیا۔ 

’’مجھے بہلاؤ نہیں تیج! مجھے بتاؤ تم کہاں رہتے ہوں۔ راتوں کو کہاں گھومتے ہو۔ کچھ مجھے جاننے کا ادھیکار ہے۔ ہے کہ نہیں۔‘‘میں نے پوچھا تھا۔ اس نے ہنس کر کہا تھا، ’’سارے ادھیکار تمہارے ہیں مگر ان سوالوں کے جواب کسی اور وقت دوں گا۔ جب کبھی پھر ملیں گے۔ صرف یہ کہتا ہوں کہ جب میرے زخموں کے نشان ابھرتے اور دکھتے ہیں۔ جب ان میں پھر سے ٹیسیں اٹھتی ہیں تو میں ان لوگوں کے لیے دوا کھوجتا ہوں جو دکھی ہیں اور جن کی مدد کرنے والا کوئی نہیں۔ میرے لیے کسی گڑھی کی ضرورت نہیں، کسی نیلے ہیرے کی ضرورت نہیں۔‘‘ 

’’بے کار کی باتیں۔‘‘ کرنل نے چٹائی پر اپنا پہلو بدلتے ہوئے کہا۔ 

’’مجھے تیج نے یہی کہا تھا۔ تب سے اب تک، اس گھڑی تک جانے کتنا سمے بیت گیا ہے۔ میری اور اس کی بھینٹ کہیں نہیں ہوتی۔‘‘ 

’’میں تمہارے تیج کو ڈھونڈتا توپھر رہاہوں۔‘‘ کرنل نےبات ختم کی ہی تھی کہ گولی چلنےکی آواز آئی۔ ہم نے پھونک مار کر دیا بجھادیا۔ بندوقیں اٹھائیں اور باہر کی طرف بھاگے۔ ستاروں کاغبارروشن اور زیادہ چمکنے والے تاروں کے درمیان آبشار کی طرح ہمارے سروں پر گر رہاتھا۔ جال میں سوئی ہوئی چڑیاں چوں چوں کر رہی تھیں۔ بے چین ہوکر جاگ اٹھی تھیں، کہیں جنڈ اور کریں کی خشک ٹہنیوں پر پانی کے کھارے ٹڈوں نے اپنی چرچر پھر شروع کردی تھی۔ بھاگتے قدموں، اونٹوں کے بلبلانے اور گولیوں کی ہر طرف سے آوازیں گھوم پھر کر سناٹے کو توڑ رہی تھیں۔ ہوا جس رخ چلتی آواز ادھر ہی پلٹتی تھی۔ ہمارے پیچھے سےاگنی دا کی آواز گونجی، ’’تیج ٹھاکر میں یہاں ہوں۔ تمہاری اگنی دا۔‘‘ 

ہمارے ہاتھ بندوقوں پر جم گئے۔ سانس رک گئی۔ جس طرف سےآواز بھرے گی، ہم ادھر ہی نشانہ باندھیں گے۔ اور ہم ٹھیک ہی منتظر تھے۔ ٹوبے کے کنارے سےکسی نے زور سے کہا، ’’اگنی دا۔ سورگ میں۔‘‘ اس سےپہلے کہ ہم شست باندھتے، بات ختم ہوگئی۔ 

رنہال پوسٹ پر جس اگنی دا کو ہم نے دشمن کے سپاہیوں کےحوالے کیا، اس کا وزن چڑیا سے بھی ہلکا تھا۔ بند آنکھوں کے گرد عجیب مسکان تھی۔ بے دانتوں کا چہرہ بھرا بھرا تھا اور گلابی جیسے بھور کامکھ ہو۔ انجانے کے اور ہوا کے چکروں میں جانے کون قید تھا اور کون آزاد تھا۔ سورگ کہیں ہے بھی کہ نہیں۔ 

   1
0 Comments